The pain of the laborers مزدوروں کا درد

😭کتنے تکبر و غرور میں ہم دوست رشتہ داروں کو بتاتے پھرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا، بھائی باہر ہوتا ہے اور اس سے بے پناہ فرمائشیں کرتے ہیں ۔ کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ وہاں کس حال میں ہو گا ، وقت پے کھانا کھاتا ہو گا کہ نہیں ، اپنے لیے جوتے کپڑے خریدتا ہو گا کہ نہیں، بیماری میں چھٹی کرتا ہو گا کہ نہیں، سونے کے لیے گھر جیسا سکون اور جگہ میسر ہو گی کہ نہیں
اللہ سب پردیس میں رہنے والے بھائیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
پردیسی
یہ اکثر صبح ناشتہ بهی نہیں کرتے کہ کہیں گاڑی ہی چهوٹ نہ جائے
ناشتہ نظر انداز کرکے کہتے ہیں " کام کی جگہ پہ پہنچ کر کچھ کها لیں گے"
جب کام کی جگہ پہ پہنچ جاتے ہیں تو کام کے دباو کی وجہ سے ناشتہ کرنا پهر بهول جاتے ہیں۔
سوچتے ہیں چلو دوپہر لنچ ٹائم ہی کچھ کهالیں گے۔۔۔
لنچ ٹائم میں بهی اکثر یہ بچارے پردیسی مزدور بهوکے رہ جاتے ہیں کہ اکثر کام کے لوڈ کی وجہ سے اوور ٹائم کا لالچ بیچ میں آجاتا ہے کہ اس بار چلو گهر کچھ ہزار زیادہ چلے جائے گے۔
گهر کے معاملات اور خوش اسلوبی سے طے پالے گے۔
بریک کے ٹایم یہ مزدور جن پہ آپکو ناز ہوتا ہے کہ وہ دبئی، شارجہ، بحرین,سعودیہ، قطر، کویت یورپ یا دنیا کے کسی کونے میں ہی کیوں نہ ہو جن پہ آپکو فخر ہوتا ہے کہ میرا بهائی تو بیرون ملک ہوتا ہے،
بریک ٹائم یہ کوئی کارٹن کا پیس اٹها کر کوئی پلاسٹ کچہرے کے ڈیر سے اٹها کر اسکو جهاڑ کر وہی بچهاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔
کچہرے کے ڈیر میں پڑا گندہ بدبودار پلاسٹ یا کارٹن کا پیس
جی ہاں ۔۔۔!!!
وہ خود گتوں پہ سوتے ہیں اور آپ کو گدوں پہ سلاتے ہیں۔
صبح 5 بجے سے لیکر رات شام 7 بجے تک مسلسل خون و پسینے کا ایک ایک قطرہ بہایا جاتا ہے ریال, درہم, دینار کے لئے
جلا دینے والی گرمی دماغ کو ابال کر رکھ دیتی ہے۔ پینے کو گرم پانی،
گرم ترین ہوا جیسے کہ تندور سے اٹهی ہو،
صحراوں میں گرد و غبار کے خوفناک ترین طوفان،
58ویں چھت کے سکفولڈنگ پہ کهڑے زندگی اور موت کی یہ جنگ صرف دینار اور آپکی خوشیوں کے لئے پردیس میں ہر دن ہر صبح ہر وقت ہر سیکنڈ لڑی جاتی ہے۔
پردیس میں ایک پردیسی پہ کیا گزرتی ہے آپ اسکا اندازہ بهی نہیں لگا سکتے۔
نہایت طاقتور جسمانی وجود کے مالک کو ایک معمولی دبلا پتلا انسان بنا کسی بات کے سو سو باتیں سنا دیتا ہے۔
پردیس میں رہنے والا کوئی ایک ایسا مزدور نہیں جو کسی فکر کسی غم کسی پریشانی سے آزاد ہو۔
کبھی اقامے کی فکر،
کبھی کفالے کی بهاگ دوڑ،
کبھی کفیل کی ٹینشن،
کبھی جوازات کے مسائل،
کبھی کمپنی کی مصیبتیں،
کبھی تبادلے کی تشویشیں،
کبھی تنخواہ وقت پہ نہ آنا،
کبھی کام ہونے نہ ہونے کی تکالیف،
کبھی سالن نہ بنانے پہ لڑائی جهگڑے،
کبھی روم رینٹ کی فکر،
کبھی روم سے نکالنے کی دهمکیاں اور کبھی آپ سب کی فرمائیشیں۔۔۔!!!
یہ جو پردیسی ہیں نا۔۔۔!!!
یہ ایک ایک حلالہ (سعودی, بحرینی, قطری, کویتی, دوبئ ، یورپی پیسہ) بچاتے ہیں۔
انکا بہت من کرتا ہے کہ کچھ اچها سا کها لے کچھ اچها سا پی لے۔
 بے حد من کرتا ہے کہ کبھی KFC برگر کنگ البیک کباب کهائے یا ریڈ بل پی لے،
لیکن
گهر کا خیال آتے ہی جیب اجازت نہیں دیتا،
uf تو یہ بیچارے واپس ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے ایک ایک روپے بچا کر اپنے لئے بهی کچھ بچت کی ہوتی ہے کہ زندگی کا کیا بهروسہ۔۔۔۔
یہ سارا وقت اسی بچت کو دیکھ کر مزدوری کرتے ہیں کہ چلو اس ماہ گهر بهیجنے اور خرچہ نکال کر میرے پاس چالیس پچاس روپے بچ رہے ہیں۔
یہ اسی کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
ایک ایک روپے جوڑ کر جب کچھ آس بن جاتا ہے تو گھر واپس آنے کی تیاری کرتے ہیں۔
ٹکٹ کی معلومات کرتے ہیں ہیڈا آفس بات کرتے ہیں۔
پتہ چل جاتا ہے کہ صاحب کی چهٹی برابر ہونے والی ہے،
پهر وہ اپنا پروگرام بناتا ہے کہ کب جانا ہے
کہ
کہ اچانک گهر سے کسی فرمائش آجاتی ہے کہ اسکو فلاں کام کے لئے اتنے پیسے چاہیے
تب ایک طرف گھر واپسی اور دوسری طرف گهر والوں کی خواہشات،
 yah keya life ?....کس کو منتخب کرے۔

Comments

Popular posts from this blog

Muslim Youth And Modern Educational Challenges