تلخ حقیقت میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا شور ھے ۔ ۔ ۔آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ در اصل خواہش پورا نہ ہونے کو بولتے ہیں۔۔ ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ اسکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (سواگہ) لگایا کرتے تھے۔۔ (سلیٹ)پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (سیل کا سکہ) استمعال کرتے تھے۔ اسکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔ اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو اسکول کلر کے ہی لیتے تھے۔۔ کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔۔ جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔ اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا۔۔ گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔۔ آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ھے۔۔ مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ھے۔ ۔ آج تو اسکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کرکے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ ۔ روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔ آج اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو